Ghazal No 1


قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا 
پھر سے بے صرفہ اجڑ جانے کا موسم آیا 

کنج غربت میں کبھی گوشۂ زنداں میں تھے ہم 
جان جاں جب بھی ترے آنے کا موسم آیا 

اب لہو رونے کی خواہش نہ لہو ہونے کی 
دل زندہ ترے مر جانے کا موسم آیا 

کوچۂ یار سے ہر فصل میں گزرے ہیں مگر 
شاید اب جاں سے گزر جانے کا موسم آیا 

کوئی زنجیر کوئی حرف خرد لے آیا 
فصل گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا 

سیل خوں شہر کی گلیوں میں در آیا ہے فرازؔ 
اور تو خوش ہے کہ گھر جانے کا موسم آیا



کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا 
اب کے موسم میں بھی عالم وہی ہو کا نکلا 

دست قاتل سے کچھ امید شفا تھی لیکن 
نوک خنجر سے بھی کانٹا نہ گلو کا نکلا 

عشق الزام لگاتا تھا ہوس پر کیا کیا 
یہ منافق بھی ترے وصل کا بھوکا نکلا 

جی نہیں چاہتا مے خانے کو جائیں جب سے 
شیخ بھی بزم نشیں اہل سبو کا نکلا 

دل کو ہم چھوڑ کے دنیا کی طرف آئے تھے 
یہ شبستاں بھی اسی غالیہ مو کا نکلا 

ہم عبث سوزن و رشتہ لیے گلیوں میں پھرے 
کسی دل میں نہ کوئی کام رفو کا نکلا 

یار بے فیض سے کیوں ہم کو توقع تھی فرازؔ 
جو نہ اپنا نہ ہمارا نہ عدو کا نکلا





Ghazl No 2




گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا 
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا 

دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں 
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا 

ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود 
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا 

باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول 
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا 

کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے 
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا 

ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر 
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا 

اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں 
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا 

میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ 
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا 

Ghazl No 3




اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا 
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا 

میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم 
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا 

کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی 
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا 

بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے 
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا 

آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو 
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا 

اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے 
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا 

اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے 
لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا





Ghazl No 4





مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا 

جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا 

وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے 
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا 

وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے 
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا 

چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا 
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا 

یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں 
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا 

ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ 
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
Share To:

mr kenny

Post A Comment:

0 comments so far,add yours